اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تناو بڑھا جا رہا ہے۔ عالمی ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے اپنے زیر قیادت یمن میں اتحاد کو بلیک لسٹ سے خارج کرنے کے لیے دباو ڈالا تھا۔
اس اتحاد کی طرف سے تنازع کے دوران کی جانے والی کارروائیوں، جن میں بچوں کو نقصان پہنچا تھا، کی وجہ سے اسے اس فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
جمعرات کو بان نے صحافیوں کو بتایا کہ "یہ رکن ممالک کے لیے ناقابل قبول ہے کہ ان پر بلا وجہ کا دباو ہو۔"
یہ بات انھوں نے رواں ہفتے کے اوائل میں جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے تناظر میں کہی جس میں سعودی قیادت میں اتحاد کو ایک فریق قرار دیا گیا جس نے "بچوں کو ہلاک کیا اور نقصان پہنچایا" اور "اسکولوں اور اسپتالوں پر حملوں میں ملوث رہا"۔
اقوام متحدہ کی سالانہ بلیک لسٹ میں شام کے صدر بشارالاسد اور سوڈان کے صدر عمر البشیر کی حکومتیں اور شدت پسند گروپ داعش بھی شامل ہے۔
ایسی مصدقہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ سعودی عرب
اور دیگر اتحادی ممالک نے اس صورتحال میں اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی پروگراموں سے فنڈز واپس لینے کی دھمکی دی تھی۔ ان پروگراموں کو پہلے ہی مالی مشکلات کا سامنا ہے۔
بان کی مون نے صحافیوں کو بتایا کہ انھیں بتایا گیا کہ اگر یہ ممالک اقوام متحدہ کے پروگراموں سے پیسہ نکال لیتے ہیں تو لاکھوں بچے متاثر ہو سکتے ہیں۔
ان کے بقول مسلح تنازعات میں بچوں میں صورتحال سے متعلق رپورٹ ایسی خوفناک ہے "جس صورتحال سے کسی بچے کو دوچار نہیں ہونا چاہیے۔"
بان نے کہا کہ فہرست سے اتحاد کے نام کے اخراج کا فیصلہ "تکلیف دہ اور مشکل ترین فیصلوں میں سے ایک فیصلہ تھا جو مجھے کرنا پڑا۔"
سعودی عرب کے سفیر عبداللہ المعلمی نے اس بیانیے کی سختی سے تردید کی ہے۔
انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ "میں آپ کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ یہ ہمارا طریقہ کار نہیں، یہ ہمارے خون میں ہماری ثقافت میں نہیں کہ ہم دباو ڈالنے کے لیے دھمکائیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔